1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریاستی اداروں کے خلاف بیان پر پابندی کا حکم، تنقید و سوالات

26 اپریل 2024

عدالت نےعمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف بیانات دینے سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔ اس پر پی ٹی آئی کا کیا ردعمل ہے اور قانونی ماہرین کی کیا رائے ہے؟

https://p.dw.com/p/4fEcf
عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف بیانات دینے سے بعض رہنے کا حکم دیا ہے
عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف بیانات دینے سے بعض رہنے کا حکم دیا ہےتصویر: Arif AliAFP

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت نے ملک کے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف بیانات دینے سے اجتناب برتنے کا حکم دیتے ہوئے میڈیا کو بھی تلقین کی ہے کہ وہ ملزمان کے 'اشتعال انگیز سیاسی بیانات' شائع نہ کرے۔

 احتساب عدالت کے جج رانا ناصر جاوید نے اس حکم نامے میں کہا ہے کہ عمران خان نے ریاستی اداروں، بشمول عدلیہ اور فوج کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیے، جو 'عدالتی امور کی راہ میں روڑے اٹکانے کے مترادف ہے'۔

عدالت نے حکومتی وکلاء اور ملزمان کے وکیل دفاع کو بھی تاکید کی ہے کہ وہ سیاسی یا اشتعال انگیز بیانات نہ دیں، کیونکہ ان سے کورٹ کا ڈیکورم خراب ہو سکتا ہے۔

حکم نامے میں صحافیوں کو بھی ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ ایسے سیاسی بیانات اور اشتعال انگیز بیانیوں کی اشاعت سے گریز کریں جن میں ریاستی اداروں اور اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہو اور یہ کہ وہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی گائیڈ لائنز کی پابندی کریں، جن کے تحت زیر سماعت معاملات پر بحث کی ممانعت ہے۔

عدالت کے اس حکم پر جہاں ایک طرف عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے لیڈران نے سخت تنقید کی ہے، وہیں وکلا برادری میں بھی اس پر بحث کی جا رہی ہے۔

عدالت کے حکم پر عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے لیڈران نے سخت تنقید کی ہے
عدالت کے حکم پر عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے لیڈران نے سخت تنقید کی ہےتصویر: Fareed Khan/AP/picture alliance

تحریک انصاف کا ردعمل

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر ذوالفقار بخاری نے ڈی ڈبلیو سے اس بارے میں گفتگو کے دوران کہا کہ ان کی پارٹی "اس حکم نامے کو چیلنج کرے گی۔‘‘ ان کے بقول اس طرح کے فیصلے "آمریت کی معراج ہیں" اور ''موجودہ فیصلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ صورتحال مارشل لا سے بھی بدترہے۔‘‘

اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے ایک اور رہنما اور عمران خان کے وکیل شعیب شاہین نے اس حکم نامے کے جاری ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے تبصرہ کیا، ''اس کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے۔ پہلے بھی عمران خان کے خلاف بہت سارے اقدامات غیر مرئی قوتوں کے اشاروں پہ کیے گئے اور یہ فیصلہ بھی طاقتور ریاستی اداروں کے اشارے پر کیا گیا ہے۔‘‘

ان کے مطابق،''یہ حکم نامہ ان آئینی شقوں کے بھی خلاف ہے، جو آزادی اظہار رائے کی ضمانت دیتی ہیں۔" شعیب شاہین نے مزید کہا، "نچلی عدالتوں کی طرف سے اس طرح کا حکم دیا جانا ایک انتہائی غیر معمولی اقدام ہے جس کی ملک کی عدالتی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔‘‘

حکم نامہ 'قابل مذمت'

 پاکستان کی وکلا برادری کے کچھ حلقوں کی جانب سے بھی اس حکم نامے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق لاہور سابق نائب صدر ربیعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں یہ حکم نامہ 'قابل مذمت ہے'۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران کہا، ''سب کو پتہ ہے کہ پاکستان میں اعلی اور نچلی عدالتیں کس کے زیر اثر ہیں اور یہ فیصلہ بھی اسی دباؤ کا نتیجہ ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''بجائے اس کے کہ عدالتیں اپنی کارکردگی بہتر کریں وہ اس طرح کی پابندیاں لگا کر ایک سابق منتخب وزیر اعظم کو عوام تک اپنی بات پہنچانے سے روک رہی ہیں۔‘‘

کیا سیاسی رخ، جی ایچ کیو کی خواہشات کے خلاف ہے؟

سابق وزیراعظم عمران خان کو کچھ مقدمات میں پہلے ہی سزا دی جا چکی ہے
سابق وزیراعظم عمران خان کو کچھ مقدمات میں پہلے ہی سزا دی جا چکی ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

سزا یافتہ مجرم اور آزادی اظہار رائے

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو کچھ مقدمات میں پہلے ہی سزا دی جا چکی ہے، اور اس تناظر میں کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ احتساب عدالت کے حکم نامے پر رائے دیتے ہوئے اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ اس فیصلے پر تنقید کرنے سے پہلے یہ بات پیش نظر رکھنا چاہیے کہ عمران خان ایک سزا یافتہ قیدی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران کہا، '' یہ بات اہم ہے کہ ہم دیکھیں کہ جیل کے قوانین کیا ہیں اور وہ قیدیوں کو کس حد تک آزادی دیتے ہیں۔ ایک قیدی کی آزادی اظہار رائے کے حق کو ایک عام شہری کے حق کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔‘‘

 تاہم ربیعہ باجوہ کو اس نقطہ نظر سے اختلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''ایک ملزم اور یہاں تک کہ ایک مجرم کو بھی اس بات کی آزادی ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں میں نظر آنے والی خامیوں کی نشاندہی کرے۔‘‘

'حکم نامے کے بعد عمران خان کی مقبولیت بڑھے گی'

 سابق رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کی نظر میں اس پابندی کا دائرہ صرف عمران خان تک محدود نہیں رہے گا۔ ان کا کہنا ہے، ''آج یہ پابندی عمران خان پر لگی ہے کل یہ پابندی کسی اور سیاست دان پر بھی لگے گی اور سیاسی جماعتوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی، جس کا سب سے زیادہ نقصان سیاسی کارکنان کو ہوتا ہے۔‘‘

 کشور زہرہ کے مطابق اس طرح کی پابندیاں لگا کر عمران خان کی مقبولیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بقول، ''سیاسی قائدین پر جب پابندی لگتی ہے تو ان کی مقبولیت گھٹنے کے بجائے بڑھتی ہے اور موجودہ حکم نامے کے بعد بھی ممکنہ طور پر یہی ہو سکتا ہے۔‘‘​