تپ دق کے بعد پھیپھڑوں کی بیماری: ایک مریض کی کہانی
4 مئی 2024عالمی سطح پر ٹی بی کے انفیکشنز میں اضافہ ہو رہا ہے، کچھ مریضوں میں ٹھیک ہونے کے طویل عرصے بعد پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصانات ظاہر ہوتے ہیں۔ نیز ادویات کے خلاف مزاحمت دکھانے والی ٹی بی کی نئی قسموں کی بھی تشخیص ہو رہی ہے۔
اس صورتحال سے دوچار ایک مریضہ دُرگا پچھلے سال اُس وقت پامال ہوئی جب اُسے پتا چلا کہ وہ تیسری بار تپ دق کے انفیکشن کا شکار ہو گئی ہے۔ اس مرض کے خلاف ادویات کا ایک اور کورس کرنے کے چار ماہ بعد بھی اُس کی یہ حالت تھی کہ بات کرنے کے دوران اُس کا نظام تنفس بگڑ جاتا اور وہ بات نہیں کر پاتی۔ یعنی اس 28 سالہ خاتون کو تب بھی سانس کی شدید تکلیف تھی۔
درگا نے اپنی شناخت محفوظ رکھنے کی درخواست کرتے ہوئے اپنا پورا نام بتانے سے اجتناب برتا۔ تاہم اپنے بیان میں اُس کا کہنا تھا، ''ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میں ٹھیک ہو گئی ہوں، لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا کہ میں اب وہی انسان ہوں۔‘‘
تپ دق کے انفیکشن کو شکست دینا بہت سے مریضوں کے لیے صحت یابی کے طویل سفر میں صرف پہلا سنگ میل ہوتا ہے۔
سامنے آنے والے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ٹی بی سے بچ جانے والے افراد کو اکثر طویل مدتی عرصے میں سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح سانس کی بیماری پھیپھڑوں کو ہونے والے دیرپا نقصان کا سبب بنتی ہے۔
ٹی بی پھیپھڑوں کو کیسے متاثر کرتی ہے؟
ٹی بی انفیکشن ایک بیکٹیریا ''مائکوبیکٹیریم ٹی بی‘‘ کی وجہ سے ہوتا ہے۔
بھارت میں مقیم پولمونولوجسٹ وجل راہولن کے بقول،''بیکٹیریا سب سے پہلے سانس کی نالی کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر انفیکشن شدید ہو تو یہ پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے۔‘‘
ابتدائی انفیکشن کے تھوڑی دیر بعد، انسانی مدافعتی نظام بیکٹیریا پر حملہ کرتا ہے، اور یہ سوزش کا سبب بن جاتا ہے۔
بعض اوقات رد عمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس سے پھیپھڑوں کے کچھ حصوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہاں تک کہ ان میں سوراخ سے ہو جاتے ہیں جوسیال یا مردہ خلیوں سے بھر سکتے ہیں۔
سوزش پھیپھڑوں کے کچھ خلیوں کی دیواروں کو موٹا کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سانس لینے میں مشکل پیدا ہوجاتی ہے۔
ادویات مزاحم ٹی بی
ادویات کے خلاف مزاحمت ظاہر کرنے والی ٹی بی میں اضافہ اس بیماری کے علاج کو متاثر کرتا ہے۔ کیونکہ تپ دق کا سبب ایک بیکٹیریا بنتا ہے اسی وجہ سے ٹی بی کے علاج کے لیے اینٹی بائیوٹک کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اینٹی بائیوٹکس بہت سے بیکٹیریل انفیکشن پر اثر انداز نہیں رہی ہیں اور اپنی افادیت کھو رہی ہیں۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ مریض کو جو دوا تجویز کی جائے وہ اُس کا کورس مکمل کرے۔
دُرگا کو پہلی بار ٹی بی اُس وقت ہوا تھا جب وہ 22 برس کی تھی۔ اُس کا کہنا ہے،'' مجھے ہر روز چار گولیاں لینے کو کہا گیا۔ میں نے دو ماہ تک تجویز کردہ گولیاں کھائیں اور بہتر محسوس کیا۔ لیکن میں نے کورس مکمل کیے بغیر علاج بند کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ميں دو سال بعد دوبارہ ٹی بی میں مبتلا ہو گئی۔‘‘
درگا کے بقول، ''میرے اندر ادويات کے خلاف مزاحمت کرنے والی ٹی بی کی تشخیص ہوئی تھی۔ ڈاکٹر حیران تھے کہ یہ میرے پھیپھڑوں کو کتنی تیزی سے نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس کے خلاف مجھے دن میں نو گولیاں لینا پڑتی تھیں۔‘‘
(سُشمیتا راما کرشنان) ک م/ ا ب ا