75 ہزار سال قبل وفات پانے والی خاتون کا چہرہ تیار
2 مئی 2024قدیم انسان نیندرتھال، پتھر کے دور کے درمیانی زمانے میں پائے جاتے تھے جبکہ خیال کیا جاتا ہے کہ انسانوں کی یہ نسل غیرمہذب اور غیر نفیس تھی۔ تاہم اب برطانوی ماہرین کی تحقیق سے نیندرتھال کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا ہے۔
اس خاتون کا نام 'شانیدار زیڈ‘ رکھا گیا ہے اور یہ عراقی کردستان کے اُس غار کا نام ہے، جہاں یہ قدیم ڈھانچہ سن 2018 میں دریافت ہوا تھا۔ اس تازہ ترین دریافت نے ماہرین کو 40 سالہ نیندرتھال خاتون کے اسرار کی تحقیقات کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس کا ڈھانچہ ایک بڑے عمودی پتھر کے نیچے بنائے گئے سونے کے بنائے گئے مقام سے ملا تھا۔
ہم بوڑھے کیوں ہو جاتے ہیں اور اس کا ارتقا سے کیا تعلق ہے؟
خیال کیا جاتا ہے کہ اس ڈھانچے کے نچلے حصے کو سن 1960 میں امریکی ماہر آثار قدیمہ رالف سولیکی نے کھدائی کے دوران دریافت کیا تھا۔ تب انہیں کم از کم 10 نیندرتھال کی باقیات ملی تھیں۔
نیندرتھال کی فنا مگر انسان کی بقا، راز ہےکیا؟
ان لاشوں کے قریب قدیم پھولوں کے زردانے (پولن) بھی ملے تھے۔ اس کے بعد رالف سولیکی نے یہ متنازعہ دلیل دی تھی کہ پھولوں کے بستر ان کی آخری رسومات کی علامت ہے۔
تاہم عراقی کردستان کا یہ علاقہ گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی بدامنی کا شکار ہے۔ کیمبرج اور لیورپول جان مورز یونیورسٹیوں کے ماہرین کو پانچ دہائیوں بعد دوبارہ زگروس پہاڑیوں پر جانے کی اجازت ملی۔ یہ پہاڑیاں عراق کے شمال میں واقع ہیں۔
محققین کے مطابق نیندرتھال تقریباً 40 ہزار سال قبل پراسرار طور پر ہلاک ہو گئے تھے۔
جدید انسان یورپ سے بہت پہلے ایشیا پہنچا تھا، نئی تحقیق
''شانیدار زیڈ‘‘ کی کھوپڑی کو اس صدی کی محفوظ ترین نیندرتھال دریافت قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ہڈیاں اس وجہ سے محفوظ رہیں کیوں کہ خاتون کی وفات کے کچھ ہی عرصہ بعد اس پر ایک چٹان گر گئی تھی۔
ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ اس عمودی پتھر یا چٹان کو ایک شناخت کنندہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا تاکہ سفر میں رہنے والے نیندرتھال اپنے مُردوں کی تدفین کے لیے دوبارہ اس مقام کو تلاش کر سکیں۔
برطانوی محقیقین امریکی ماہر آثار قدیمہ رالف سولیکی کی ''فلاور بریل‘‘ تھیوری سے بھی اختلاف کرتے ہیں۔ ان محقیقین کا کہنا ہے کہ پھولوں کے زردانے غار میں شہد کی مکھیوں کے چھتوں سے بھی یہاں آ سکتے ہیں۔
اس غار سے ملنے والی تمام لاشوں کی پوزیشن اور سمت ایک جیسی تھی۔ ماہرین کے مطابق اس کا مطلب نیندرتھال میں ''روایت اور علم کی نسل در نسل منتقلی‘‘ ہے۔ ماضی میں نیندرتھال کی بنائی گئی ممکنہ تصاویر اس نئی تصویر سے مختلف ہیں۔ ابھی تک یہ سمجھا جا رہا تھا کہ قدیم انسان نیندرتھال کی کھوپڑیاں موجودہ انسانوں سے بڑی تھیں جبکہ ان کی تھوڑیاں چھوٹی تھیں۔
ا ا/ا ب ا (روئٹرز، اے ایف پی)